آزادی کا ایک خواب ۔
مشتاق اپنے ہاتھ میں چائے کا ایک پیالی لیتے ہوئے کہتا ہے “کشمیر ہونا چاہیے ” نہیں تو بجلی پانی کے بھی پیسے دینے ہوں گے ۔ بجلی پانی کا پیسہ ہم کیوں دے ؟
یہ کہانی کچھ اس طریقے سے شروع ہوتی ہے کی عبدل جو کی ایک چائے بیچنے کی دکان کا مالک ہے بڑبڑانا شروع کر دیتا ہے اپنے ساتھیوں پر جو کشمیر کی خواب والی آزادی پر بحث کرنے لگے ۔
مطلب آزادی کے بعد بجلی پانی مفت ہو جائے گی ؟ اور کیا کیا چیزیں مفت کی جائینگی ؟ بشیر نے کہا ایک جعلی معصومیت کے ساتھ. مشتاق جو کی اس چیز سے خود بے خبر بڑبڑاہٹ میں آ کر کہتا ہے کہ کافی ساری جیزی مفت کر دی جائیں گی بھائی ۔ مشتاق کی یہ بات سنتے ہی فیروز کے ذہن میں ایک سوال آیا اور کہنے لگا کی “حکومت کیسے چلے گی ” سیاحت ، خشک میوا ، زعفران ،فرنیچر مشتاق نے کہا آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے۔سیاح کہاں سے آئیں گے بشیر نے کہا ؟ یہ بات سنتے ہی مشتاق کو بہت غصّہ آیا اور زور سے کہا “سیاح وہاں سے آئیں گے جہاں سے ابھی آتے ہیں” فیروز اس بحث میں مزے لیتے ہوئے ایک اور سوال پوچھتا ہے کی میوا ،خشک میوا ،زعفران اور فرنیچر کہاں بھیجو گے؟ مشتاق کے پاس ایک بار پھر اس بات کا جواب نہ ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ جہاں ابھی بیچتے ہیں اور کہاں ۔
یہ ساری باتیں سننے کے بعد فیروز اب سنجیدہ مزاج میں آکر ایک بار پھر سے پوچھتا ہے کی خدا کے واسطے یہ بتاؤ حکومت کون چلائے گا ؟ مشتاق یہ سوال پھر سے سنتے ہی غصے سے آگ بگولا ہوا اور گلاس کو ٹیبل پر زور سے مارتے ہوئے کہنے لگا کیا مطلب کون ؟ حکومت ہم چلائیں گے اور کون چلائے گا ۔ کیا پنچایتی راج ہوگا بشیر نے پوچھا ۔ مشتاق یہ سوال پورا ہونے سے پہلے ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہاں پنچایتی راج تو لازمی ہے ۔ بشیر انصاری باتوں کو سننے کے بعد ایک تلخ انداز میں کہنے لگا الیکشن کون کروائے گا ؟ دہشت گرد ، انتہا پسند ، سیاست دان یا کوئی اور نئی جماعت ؟ مشتاق نے اپنا منہ کھولا لیکن کچھ کہہ نہ سکا اور جب تک چائے کا دوسرا پیالہ نہ آیا تب تک چپ رہا ۔ مشتاق بھائی اگر سیاح ملک کے دوسری ریاستوں سے آنے ہیں اگر خوش میوا اور فرنیچر وہاں جانا ہے تو پھر الگ کیوں ہونا ہے ؟ اور میرے بھائی ہم کو یہ تو پتا نہیں کہ حکومت کون چلائے گا تو پھر کیسی آزادی فیروز نے بڑی سنجیدگی سے یہ سوال مشتاق سے پوچھا ۔کیا پاکستان ہم کو آزاد دیکھنا پسند کرے گا ؟ انہوں نے تو اپنے ساتھی جی کے ایل ایف (جموں کشمیر لبریشن فرنٹ )والوں کو بھی مروا دیا تھا ،کی وہ آزادی کی بات کرتے تھے ۔تم کو کیا لگتا ہے پاکستان ہم سے پیار کرتا ہے کیا ؟سنو بھائی جان ،آنے والے وقت میں دریاؤں کا پانی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن جائے گا۔پاکستان اس بات سے بخوبی واقف ہے اس لئے وہ ہمارے دریائوں کو لینا چاہتا ہے اور کشمیر کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ ہم سے محبت کرتے ہوتے تو روز کشمیری بے گناہ نوجوان نسل کو اپنے اشاروں پر نہ مرواتے .انہوں نے تو اپنے بنگالی لوگوں کو مشرقی پاکستان میں قتل کر دیا بھلا ہم کو کیا بخشیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری لوگوں کی بدتر حالات کو دیکھو ذرا ، آج کل کتنے بے گناہ لوگوں کو پاکستان کے اشارے پر مارا جارہا ہے بشیر نے بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ۔
مشتاق کافی وقت سے بشیر کی بات کو سنتے ہوئے کہتا ہے کہ بھائی جان لیکن یہ اتنی افواج اور پولیس اور یہ آئے دن سڑکوں پر لوگوں کی تلاشی لینا لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر گاڑیوں کی تلاشی لینا یہ سب تو بند ہو جائے گا ۔بشیر نے اپنی آواز کو دیمی کرتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر یہ افواج اور پولیس نہ ہوں تو دہشت گرد ہمارے گھروں میں روز بسائیں گے ۔ان دنوں کو یاد کرو جب وہ اپنی مرضی چلاتے تھے جس کو چاہے مار دیا ،جس کو چاہے اگواہ کر لیا ،اور کیا ہماری بیٹیاں محفوظ تھی ؟ دہشت گرد آج کے دن سرپنچوں ،پولیس والوں ،اساتذہ اور عام لوگوں کو بے رحمی سے مار رہے ہیں ۔سوچو اگر ان کو کھلی چھوٹ مل گئی تو وہ کیا کیا کریں گے ۔ان دہشتگردوں کی تنظیموں میں آپس میں فتنہ اٹھ جائے گا جیسے چند سال پہلے ہوا تھا ،بیٹیوں کے لیے سکول بند ہو جائے گا ،برقع پہننا لازمی ہوگا ،عدالتیں بند ہو جائیں گی اور سڑکوں پر سر عام لوگ لٹکا دیے جائیں گے۔ جنگلی راج ہو جائے گا کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہوگا تو تم شکر مناؤ ابھی سب ٹھیک چل رہا ہے ترقی ہو رہی ہے لوگ اپنے گھر میں محفوظ ہیں اور کیا چاہیے ؟یہ مفت بیچ لیں ،مفت کی باقی سہولیت سب ایک خواب ہیں ۔دنیا کے ہر ایک ملک میں بجلی کا بل بھرنا ہوتا ہے ،نہیں تو حکومت کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا کہ وہ لوگوں کو ان کی تنخواہ اور باقی چیزیں فراہم کرے ۔اگر یہ ہڑتال اور بند نہ ہو تو زندگی تھیک چلتی رہے گی بشیر نے کہا ۔
عبدل جو کہ چائے کی دکان کا مالک تھا بڑی ہی سنجیدگی سے اس بات کو سنتا رہا اور بشیر کی باتوں سے اتفاق کیا ۔یہ ساری باتیں سننے کے بعد بشیر کو آپنے وہ دن یاد آگئے جب وہ اپنی دکان کافی مہینوں تک نہ کھول سکا چناچہ پورے کشمیر میں ہڑتال اور بند کال کی عرضی کی گئی تھی ۔اور یہ سب کام ان لوگوں کا تھا جو اپنی زندگی شان و شوکت سے جی رہے تھے لیکن بے گناہ کشمیری لوگوں کو خواب کی آزادی دکھا کر مروا رہے تھے ،یہ سب کام وہ لوگ کر رہے تھے جنہیں خود بھی نہیں پتا تھا کی آزادی کیا ہے ۔